Skip to main content

فاتح عالم چنگیزخان

فاتح عالم چنگیز خاں
چنگیزخان 

 
خاندانی پس منظر شخصیت و کردار تاریخ کے آئینے میں 
از قلم 
ڈاکٹر عارف محمود چغتائی 
نائب صدر بابری فورم پاکستان 
03013353330 
ہاوس آف بورجین کا ایک دمکتا ستارہ
تموچن (چنگیز خان) کے خاندان (ہاوس آف بورجین) کا پس منظر 
بورجین کون ہیں؟ 
بورجیگان کے لفظی معنی ہیں نیلگوں آنکھوں والے بھیڑیے کی اولاد یا نیلگوں 
آنکھوں والے بھیڑیوں والے 
بورجیگان 

  
تومنہ خان اسے بورجین کا جدِاعلی کہا جاتا ہے اس کے دو جڑواں بیٹے قبل یا قابل خان دوسرا قجولی یا قاچولی بہادر تھا. قبل خان پہلے اس دنیا میں آیا اس لیے اسے بڑا کہا جاتا ہے اور اسی قبل خان سے اگئے تموچن یعنی چنگیز خان آتا ہے اور جبکہ قجولی بہادر سے اگئے تیموری آتے ہیں تومنہ خان نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دونوں بیٹوں "قبل خان" اور قجولی بہادر "کے درمیان ذمہ داریاں تقسیم کر دیں تھیں اس ذمہ داری کے مطابق قبل خان اور اس کی اولاد سرداری یا حکمرانی کرے گی جبکہ قجولی بہادر کی اولاد سپہ سالاری کرے گی اور اس معاہدے کو فولاد کی تختی پر کندہ کرا کے محفوظ کر دیا گیا تھا اور چنگیز اور تیمور تک اس معاہدے پر عمل ہوتا رہا اور اس معاہدے کا ذکر امیر تیمور کی خودنوشت تزک تیموری میں بھی ہے اور ظفر نامہ میں بھی ہے) 
تومنہ خان کے دو بیٹے تھے ایک کا نام  *قبل خان * اور دوسرے بیٹے کا نام *قجولی بہادر* تھا 
قبل خان 
*قبل خان* سے *برتان بہادر * برتان بہادر سے *یسوگای بہادر * یسوگائی بہادر سے *تموچن* (چنگیز خان) پھر چنگیز خان سے چار بیٹے 
*جوجی خان*(خان اردو زریں یا سنہری غول و وزیر شکاریات) 
*چغتائی خان*(خان آف چغتائی خانت و وزیر عملداری یاسا قانون) 
*اغدائ خان *(خان اعظم) 
*تولائی خان *(خان آف ایلخانت) 
جبکہ تومنہ خان کے دوسرے بیٹے *قجولی بہادر* سے *امیرومچی برلاس* (انہیں کے نام پر قبیلہ برلاس ہے ورنہ اس سے پہلے بوزنجری کہلاتے تھے)  امیرومچی برلاس سے *امیر سوغچچن برلاس * امیرسوغچچن برلاس سے *️قراچار نویان* (یہ چنگیز خان کے سپہ سالار تھے اور چنگیز خان کے بیٹے چغتائی خان کے وزیراعظم، سپہ سالار اور داماد بھی تھے اسے چنگیز خان اپنے چچا کا بیٹا کہے کر پکارتا تھا) قراچار نویاں سے *امیر ایجل* امیرایجل سے *امیر اننگیر * امیرانگیر سے *امیر برکل* امیربرکل سے **امیر ترغائی** امیرترغائی سے ⬅️ امیر تیمور گورگان 
امیر تیمور رحمۃ اللہ اپنے پوتے پیر محمد کے ساتھ 

***** امیر تیمور سے *مرزا میرن شاہ * مرزا میرن شاہ سے *محمد میرزا * محمد میرزا سے *ابو سعید مرزا* ابوسعید میرزا سے *عمر شیخ مرزا * عمر شیخ میرزا سے ***
شہنشاہ ہند ظہیر الدین محمد بابر
میرزا ظہیرالدین محمد بابر 

 
شجرہ خاندان بورجین تومنہ خان سے عالمگیر تک 


"" ہاوس آف بورجین ترک و منگول میں ایسا خاندان ہے جس نے سب سے زیادہ عزت و منزلت پائی ہے اسی خاندان نے سب سے طویل حکومت کی اور ایسی خاندان نے ہی سب سے زیادہ اور ذہین ترین حکمران، سپہ سالار،  خان، اور جنگجو دیے ہیں 
اسی بورجین ہاوس نے دو انتہائی ذہین ترین، قابل کار اور فہم فراست والے فاتح عالم چنگیز خان اور آمیر تیمور رحمتہ اللہ علیہ کی صورت دنیا کو دیے تھے جنکا نام رہتی دنیا تک رہے گا 
بورجین ترکوں میں واحد خاندان ہے جو کبھی بھی کسی کی غلامی قبول نہیں کی اور یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ یہ پیدا ہی لیڈری یا حکومت کرنے کے لیے ہوا ہے اور اگر اس خاندان کو تاریخ سے نکال دیا جائے تو ترک  تاریخ تو کجا تاریخ عالم بھی بانچھ ہو جائے
ان کی حکومت ایشیاء ، یورپ اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی"" 

ہاوس آف بورجین میں تموچن (چنگیزخان) کے خاندان کی شان و شوکت 

کیا تموچن (چنگیز خان) ایک خانہ بدوش گڈریے کا بیٹا تھا؟؟ 

تو اسکا سادہ سا جواب ہے جی نہیں 
وہ ایک سردار (حکمران کا بیٹا تھا) اور حکمرانی انکا پیدائشی حق تھا اور یہ حق ان کو ان کے جدِاعلی تومنہ خان نے دیا تھا اور اس خطہ میں رہنے والا ہر انسان جانتا اور مانتا تھا 
تموچن (چنگیز خان) کے باپ یسوگائی بہادر کے خیمہ گاہ میں 40 ہزار خمیے (یورت) تھے اس سے اس کی طاقت کا اندازہ کر لیں 40 ہزار خیموں (یورتوں) پر مشتمل ایک شہر تھا اس خیموں کے شہر میں 3 لاکھ نفوس تھے اور ویسے تو ہوش سنبھالنے والا ہر مرد و زن قدرتی جنگجو تھا مگر 1 لاکھ سے زائد جوانمرد جنگجو سپاہی تھے سریع الحرکت یہ سپاہ ہر وقت ہر حالت میں تیر و تفنگ اور حربی ساز و سامان کے ساتھ گھوڑوں پر حرب و ضرب کے لیے استادہ رہتے 
یہ لوگ قدرتی، فطری، مورثی جنگجو تھے اور ان کا خاندانی پیشہ سپہ گری تھا 

سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے(غالب) 

اور ان کے ہر مرد و زن کے پاس ایک سے دو گھوڑے ہوتے تھے یوں ان کے زیر استعمال گھوڑوں کی تعداد لاکھوں میں تھی جبکہ انکے پالتو جانوروں گائے، بیل، یاک، رینڈر، بھیڑ ،بکریاں اور بارہ سینگوں کی تعداد کا تو شمار ہی نہیں تھا اس طرح انکا فارغ وقت میں مشغلہ شکار تھا اس لیے ان کے پاس پالتو شکاری کتے اور باز بھی بڑی تعداد میں ہوتے تھے اور اسطرح ان کا پسندیدہ مشروب اور خوراک گھوڑی کا دودھ اور گوشت تھا 
انکے ہاں مرد و زن کی برابر تکریم تھی جبکہ انکی زنان نہ صرف مردوں کے ساتھ برابر کام بٹاتی تھیں بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، حرب و ضرب کی تربیت، خاندانی روایات قائم رکھنا اور امور خانہ داری بھی انہی کی ذمہ داری تھی 
انکے سرداروں کے خیمے (یورت) پر سمور کی قیمتی کھال چڑھائی جاتی تھی جبکہ اندر سے زرق و برق اور دنیا جہاں کی قیمتی اور نایاب چیزوں اور دشمن سے چھینیے گئے حربی و قیمتی سامان سے مرصع کیا جاتا تھا جو انکے مرتبہ کا پتہ دیتی تھیں 
یہ لوگ بلا کے مہمان نواز تھے بات بات پر دعوتیں کھانا اور کھلانا ان کا محبوب مشغلہ تھا 
اب صاف بات ہے کے خان (امیر ،سردار یا حکمران) کے زیر سایہ خیموں کے شہر اس میں بسنے والے لوگ اور جانوروں کی حفاظت، عزت و آبرو، بودوباش اور خوراک و ضروریات کا انتظام خان کی ذمہ داری تھی 
اور ان کا بودوباش کا اصول اجتماعی ذمہ داری تھا جبکہ صرف اور صرف ایک ہی قانون رائج تھا وہ تھا طاقت کا قانون 
اس قانون کے تحت جب بھی کسی خان میں کمزوری یا نااہلیت نظر آتی یا جو خان اپنے آپ کو زیادہ اہل اور طاقتور ثابت کرتا اکثریت قبائل کمزور خان کو چھوڑ کر طاقتور خان کے زیر سایہ چلے جاتے اور اسی قانون کے تحت دوست دشمن بھی بدلتے رہتے تھے آج کا دوست کل کا دشمن اور آج کا دشمن کل کا دوست 
تموچن کے باپ یسوگائی بہادر کی ناگہانی موت نے یکسر ماحول بدل دیا دوست دوست نہ رہے بھائی خواہ جان کے دشمن بن گئے اور جو اعلانیہ دشمن تھے وہ بھی اور جو تموچن کے باپ کی طاقت سے خائف تھے وہ بھی طاقت کا توازن بگڑنے پر 9 سالہ تموچن اور اس کے خاندان پر پل پڑے 9 سالہ تموچن کے لیے وہ وادی انگار وادی بن گئی 9 سالہ تموچن کے لیے زندہ رہنا مشکل بن گیا تموچن نے دشمن کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں 
موت کو بھی کئی بار اپنے قریب سے دیکھا 
اس کھیلنے کی عمر میں ہی اس نے بہت کچھ سیکھا اس نے قانون طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے سمجھا لوگوں کے رویوں کو بھی دیکھا دوست دشمن کے اصول کو بھی ازبر کیا 
اس چھوٹی سی عمر میں کوئی بڑا کام لینے کے لیے اللہ مصائب کی صورت اس کی تربیت کر رہا تھا 
تموچن نے خود ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ ہم 4 دوست جس میں قراچار نویاں جو امیر تیمور کا جدِاعلی، چغتائی خان کا داماد جسے تموچن اپنے چچا زاد کہتا تھا بھی تھا بری طرح دشمن کے نرغے میں پھنس گئے زندہ بچنے کی کوئی صورت نہ تھی دشمن ہم پر تیروں کی بارش کر رہے تھے لیکن کوئی تیر بھی ہمیں نہیں لگ رہا تھا ہم دوست ہنس رہے تھے اور حیران ہو رہے تھے کہ تیر ہمیں کیوں نہیں لگ رہے بالآخر ہم دشمن کے نرغے سے باہر نکل گئے دشمن کے نرغے سے نکلنے کے بعد ہم دوستوں نے اس واقعہ پر غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ اللہ ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے اس دن کے بعد سے تو ہمیں موت کا خوف رہا ہی نہیں تھا اور ہم ہر جنگ میں بڑی بے جگری سے کود پڑتے تھے
تموچن نے ایک سبق یہ بھی سیکھا اور بیان کیا کہ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں اور بغیر سوچے سمجھے نہ کریں اور معاملات کی اگر سمجھ نہ آ رہی ہو تو خاموش رہیں اور حالات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں جب حالات سمجھ آ جائیں تو ردعمل دیں 
بالآخر نھنا تموچن مصائب و الم سے سبق لیتے ہوئے ذاتی و مورثی فہم و فراست، صبر و استقامت، ہمت و حوصلہ، عقل و دانش، بہادری و جوانمردی اور خاندانی نام و دبدبہ کی بدولت مصائب الم کو شکست دے کر اپنے دشمنوں کو نہ صرف زیر کیا بلکہ انہیں عظیم مقصد کے لیے اپنے ساتھ ملایا بلکہ منگولیا اور سائبریا کے تمام خانوں (سرداروں) کو یکجا کیا اور جمہوری طریقہ پر ان خانوں کی کورلتائی (اجتماع) بلائی گئی اور وہاں یہ تجویز رکھی گئی کہ تمام خانوں پر ایک خان اعظم مقرر کیا جائے تمام خان اور ان کے قبائل اس خان اعظم کے تابع فرمان ہوں اسی کورلتائی میں تمام خانوں نے مشترکہ طور پر تموچن کو اپنا خان اعظم (چنگیزخان) چنا اور یہ بھی طے پایا کہ آئندہ تموچن کو چنگیزخان (خانوں کے خان یا خان اعظم) سے پکارا اور لکھا جائے گا 
اب چنگیزخان کے پاس وسائل بھی تھے، سریع الحرکت سپہ بھی اور وافر افرادی قوت بھی اور سب بڑھ کر دیرینہ دشمن چین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے وقت بھی کیونکہ چین نے دیوارِ چین چنگیزخان کے ابا و اجداد کے ڈر سے اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے بنائی تھی اور چین خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک حکمت عملی یہ بھی بنائی تھی کہ دیوار کے پار رہنے والے منگولوں کو آپس میں لڑائے رکھو اور ان میں سے کبھی ایک گروہ کی مدد کردی پھر اس کی طاقت ختم کرنے کے لیے دوسرے گروہ کی مدد کردی 
چین اس طرح ان کو آپس میں دست و گریبان کرکے اپنا الو سیدھا کیے رکھا 
لیکن اب چنگیزخان کی قیادت میں تمام قبائل دشمنی بھلا کر متحد ہو چکے تھے اسی دنیا کی بہترین جنگی مہارت رکھنے والی سپہ نے دیوار چین کو روندتے ہوئے چین کو فتح کیا اور چین کا غرور خاک میں ملا کر اپنے اوپر روا رکھی گئی زیادتیوں کا بدلا چکایا 
منگولوں کی فطرت میں شامل تھا کہ وہ دشمنوں کا جہنم تک پیچھا کرتے اس کی ایک مثال آپ خوارزم شاہ کے واقعہ میں دیکھیں گے 
تاریخ نے اسے ظالم، سفاک خونخوار، وحشی اور پتہ نہیں کس کس نام سے یاد نہیں کیا ہے
میں یہاں نہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ظالم، سفاک یا خونخوار نہیں تھا اور جو سلوک اس نے دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں کیا وہ انہونا نہیں تھا اس طرح کا طریقہ اس سے پہلے کا چلا آ رہا تھا اور آج تک جاری ہے 
اور نہ ہی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کوئی خامی نہیں تھی یا سب اچھے کام اس نے  کیے ہیں کوئی برا کام نہیں کیا ہوگا اور صاف سی بات ہے کہ ہر انسان میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں اس طرح تموچن (چنگیز خان) میں بھی بحیثیت انسان اچھائیاں برائیاں دونوں تھیں لیکن تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ 
  تاریخ دانوں کی کوشش رہی ہے کہ دنیا جہاں کی ہر برائی اس کے کھاتے میں اور ہر اچھائی اس کے مخالفین کے کھاتے میں ڈال دی جائے
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تاریخ لکھنے والوں کی اکثریت چنگیزخان کے دشمنوں میں سے تھے اور جانبدار تھے 
اس وقت تاریخ لکھنے کا رواج چینیوں، ایرانیوں اور عربوں میں تھا اور تاریخ دان کیونکہ درباری ہوتے تھے اور جو انہیں دربار سے ہدایات ہوتی تھیں وہی لکھتے تھے اور یہ تینوں اقوام چنگیزخان کے مفتوح اور متاثرین میں شامل تھے اس لیے ان کی تحریروں میں چنگیز خان سے نفرت، بغض اور دشمنی جگہ جگہ ملتی ہے 
اور یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ چنگیز خان ہو یا امیر تیمور یا سابقین ہوں یا اولین کسی بھی  منگول نے نہ کسی سفیر کو قتل کیا یا کرایا ہے اور نہ ہی اپنے دشمنوں کے قبروں سے مردے نکال کر انہیں پھانسیوں پر لٹکایا ہے 
اگر چنگیز خان اسلام دشمن ہوتا تو وہ پہلا حملہ چین پر نہ کرتا بلکہ مسلمانوں پر کرتا 
اگرچہ کہ کچھ واقع نگاروں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا اور کچھ کا خیال ہے کہ وہ اسلام سے متاثر تھا اور اس کا یاسا قانون بھی اس طرف دلالت کرتا ہے کہ وہ اسلام سے بہت متاثر تھا اور اس کی اگر خوارزم شاہ سے جنگ نہ ہوتی تو شاید وہ اسلام قبول کرلیتا ان احوال کے باوجود علماء جمہور کا خیال ہے کہ وہ کافر تھا اور میں علماء جمہور کی رائے چیلنج نہیں کر رہا بلکہ ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس کی لڑی جانے والی جنگیں کفر اسلام کی لڑائی تھی کیا اس پر لگائے گئے الزامات درست تھے آپ خود اندازہ کر لیں 
چنگیز خان کی خواہش تھی ہمسایہ اسلامی ملکوں سے برادرانہ تجارتی تعلقات استوار ہوں اب چین ون بلٹ ون ٹرین روٹ و تجارتی زون جسے ہم سی پیک کہتے یہ اصل میں چنگیز خان کی پلاننگ تھی کو آگے بڑھا رہا ہے 
ہاں تو بات کو آگے بڑھاتا ہوں کہ تجارتی تعلقات کے لیے چنگیز خان مسلمانوں کے عباسی خلیفہ سے بھی رابطے میں تھا اور شاہ خوارزم سے بھی بلکہ شاہ خوارزم کو چنگیز خان اپنا بیٹا کہتا اور سمجھتا تھا حالات اس وقت خراب ہوئے جب چنگیز خان کے سفیروں اور تاجروں کو شاہ خوارزم نے قتل کرا دیا 
پہلے پہل چنگیز خان سمجھا کہ شاہ خوارزم اور مجھے لڑانے کے لیے کسی سازشی گروہ نے یہ کام کیا ہوگا اس کو جاننے اور شاہ خوارزم سے یہ مطالبہ رکھنے کے لیے ایک اور وفد شاہ خوارزم کے پاس بھیجا کہ آپکے علاقہ میں میرے سفیروں اور تاجروں کا قتل ہوا ہے آپ اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کو خود سزا دیں یا ان کو میرے حوالے کریں لیکن بدقسمتی سے شاہ خوارزم نے اس دفد کو بھی قتل کر دیا اس کے بعد بھی آخری دفعہ ایک اور وفد چنگیز خان نے شاہ خوارزم کے پاس بھیجا اس وفد میں چنگیز خان کی طرف سے مسلمان بھی تھے شونی قسمت شاہ خوارزم نے اس وفد میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی سب قتل کردیے جس ایک کو چھوڑا اسے گنجا کرکے چنگیز خان کے پاس واپس بھیج دیا کہ وہ جا کر یہ واقعات بتائے ان حالات کے بعد چنگیز خان کے پاس سوائے جنگ کہ اپنے سفیروں، تاجروں اور بیگناہ لوگوں کا بدلا اور ظالم اور حد سے تجاوز کرنے والوں کو سبق سیکھا سکے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا
بالآخر اب جنگ نے فیصلہ کرنا تھا کہ کس نے رہنا ہے اور کس نے فنا ہونا ہے 
کچھ واقع نگار کا کہنا یہ بھی ہے کہ شاہ خوارزم والے قابل نفرین واقع کے بعد چنگیز خان تمام لشکر کو چھوڑ کر ایک پہاڑی پر چڑھ گیا وہاں تین راتیں گزاریں اور وہاں مسلمانوں کے رب کو پکار کر یہ التجا کرتا رہا کہ اے مسلمانوں کے رب دیکھ میں مظلوم ہوں میرے سفیروں اور بیگناہ تاجروں کا قتل کیا گیا اور ظالموں کے خلاف میری مدد فرما کہتے ہیں کہ تیسری رات اللہ نے اسے خواب میں فتح یاب ہونے اور جنگ کا پورا نقشہ دیکھا دیا بعد میں اسی نقشہ پر چنگیز خان نے جنگ لڑی اور شاہ خوارزم کو شکست فاش دی کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چنگیز خان کے لشکر میں فرشتوں کو دیکھا گیا مگر میرا اس بات پر یقین نہیں ہے 
شاہ خوارزم کے بعد اس کے بیٹے نے کمان سنبھالی شاہ خوارزم بنا وہ بزدلوں کی طرح بھاگتا رہا اور منگول دستہ اسکا پیچھا کرتا رہا اور حاتکہ وہ دریا سندھ میں کود گیا اور دریا کو پار کرکے ایران، عراق اور آخر آذربائیجان جا پہنچا ادھر منگول لشکر بھی اس بزدل کو ڈھونڈ کر قتل کردیا 
کہتے ہیں نہ کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں 
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر آفات اور نقصان کا واحد ذمہ دار شاہ خوارزم ہی تھا
چنگیزخان کے لشکر میں اور مشیروں میں مسلمان بھی تھے دیگر مذاہب کے لوگ بھی اور اگر وہ اسلام دشمن ہوتا تو اپنے لشکر اور مشیروں میں مسلمانوں کو کیوں رکھتا 
منگولوں کی ایک یہ بھی خوبی تھی کہ وہ مذہب کے بارے انتہا پسند نہیں تھے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے
اور ہر مذہب کو ساتھ لے کر چلتے تھے اس لیے تبدیلی مذہب پر کوئی قدغن نہیں تھی خود چنگیزخان کے دور میں کئی ہزار منگول مشرف بااسلام ہوئے جبکہ چنگیزخان کے یاسا قانون میں ہر مذہب کی عبادت گاہیں اور متوالیوں پر نہ صرف ٹیکس کی چھوٹ تھی بلکہ انکا وظیفہ حکومت کے ذمہ تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسے مسلمانوں سے کوئی پرخاش نہیں تھی نہ ہی اس کی لڑی جانے والی جنگیں کفر اسلام کی جنگیں تھیں 

یاسا قانون کے چیدہ چیدہ نکات

1 حکم دیا جاتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ہستی کا اقرار کریں جو ارض و سما کا مالک ھے۔جو زندگی اور موت کا اختیار رکھتا ھے۔
2 چوری کی سزا موت ھے۔
3 ماں باپ کی نافرمانی سخت جرم ھے۔
4 بیوی کی شوہر سے سرکشی ناقابل معافی ھے۔
5 شوہر کی بیوی سے بے وفائی اور شک بھی ناقابل معافی ھے ۔
6 نشہ کے عادی مہینے میں صرف 3 بار نشہ کر سکتے ھیں اور نشے میں اس قدر مدہوش ہونے کی قطعی اجازت نہیں ہے،نشے میں مدہوش شخص کی مثال ایسی ہے کہ اس کے سر میں غیر معمولی چوٹ لگی ہو اور وہ حواس کھو بیٹھے۔  ۔
7 امیر لوگ غریبوں کی مدد کریں ۔
8 کم مرتبہ کے لوگ سرداروں کی اطاعت کریں ۔
9 بہتے پانی میں نہانا منع ہے ۔
10 بجلی کی کڑک اور بادلوں کےطوفان میں پانی سے دور رہنے کا حکم ھے۔
11 باہم لڑائی جھگڑا حرام ھے۔
12 تموجن کے سوا کوئ چنگیز خان نہیں کہلا سکتا ۔
13 دوسرے مذاہب کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ھے ۔
14 چنگیز خان اوراس کے چاروں بیٹوں کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا یا پھر سرے سے لکھا ہی نہ جائے ۔
15 دوسرے مذاہب کے علماء مذہبی عہدیدار عام الزامات سےبری تصور ھونگے۔
16 مذہبی علماء عہدیدار ان کا احترام و عزت لازمی ہے ۔
17 جھوٹھی گواہی کی سزا موت ھے۔
18 غداری کی سزا موت ھے۔
19 جاسوسی کی سزا موت ھے۔
20 ہم جنسیت پرستی کی سزا موت ھے۔
21  زنا کی سزا موت ہے 
22 کالے جادو کی سزا موت ھے۔
23 یاسا کا تعلق جائیداد اور جانوروں سے نہیں ھے ۔
24 کوئ شخص اس وقت تک مجرم نہ سمجھا جائے جب تک وہ خود اعتراف نہ کرے یا رنگے ہاتھوں پکڑا نہ جائے ۔
25 باہمی اختلافات اور تنازعات منصفانہ طریقے سے بیٹھ کر طے کرنے ھونگے ۔
26 چور۔ڈاکو لٹیرے اور اٹھائ گیر کی سزا سزائے موت تک ھو سکتی ہے ۔
27 مہمان نوازی ہر ایک کا فرض ھو گا ۔
28 باہم متحد رہنا۔ایک دوسرے کے کام آنا اور دشمن ممالک کو تباہ کرنا ہر منگول کا فرض ہے ۔
29 کوئی فوجی اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا ۔
30 دوران جنگ ہراول دستوں پر لازم ہے کسی زخمی ساتھی کو پیچھے نہ چھوڑا جائے ۔
31 جھنڈا میدان جنگ سے ہٹائے جانے تک کوئی فوجی میدان جنگ نہیں چھوڑ سکتا ۔
32 کمان دار کی اجازت کے بغیر مال غنیمت اکھٹا کرنا منع ہے ۔
33 جس فوجی کو جس قدر مال غنیمت ملے وہ اسی کا حصہ ھو گا ۔
34 بحث و مباحثہ اخلاقی جرم ھو گا ۔
35 جھوٹھے کے لیے سخت سزائیں مگر ضرر رساں جھوٹ کی سزا موت ھے۔
36 محکمہ سزا۔چغتائ خان ۔محکمہ شکار۔جوجی خان ۔محکمہ مشاورت ۔تولی خان کے سپرد ہونگے جبکہ چوتھے بیٹے کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا ۔
37 یاسا کی پابندی کے ساتھ خاندانی رشتوں اور قبائلی رسوم کی پابندی کی اجازت ھو گی۔ 

*بہرحال اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ منگولوں نے مسلمانوں کو فتح کیا اور اسلام نے منگولوں کو زیر کیا اور یہی منگول اسلام کے پشتی بان بنے * 

جس پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا 

ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
Turkic mongol

Comments

  1. بہت ہی عمدہ خوبصورت پیرائے میں بیان کردہ انتہائی معلوماتی مضمون جو مضمون نگار کی فن تحریر پر گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔۔
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    خیر اندیش
    مرزا شمشاد بیگ
    لاہور

    ReplyDelete

Post a Comment

Turko mongol

مغل بحریہ

مرزا عرفان بیگ ایڈووکیٹ  میرزا عرفان بیگ ایڈووکیٹ کے قلم سے  🔻مغربی ساحل پر مغل بحریہ🔻  ❗️یہ افسانہ ہے کہ مغلوں کے پاس بحریہ نہیں تھی...درحقیقت مغلوں کے پاس بحریہ تھی....اورنگزیب کے دور میں یہ سب سے زیادہ مضبوط تھی......اورنگ زیب نے اپنی خدمت میں سدیوں کو بھرتی کر کے مغربی ساحل میں ایک طاقتور بحری قوت تیار کی جس نے   1686-1690 کی اینگلو-مغل جنگ میں انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کو شکست دی جسے بچوں کی جنگ بھی کہا جاتا ہے..... ‏ (A History of Mughal Navy and Naval Warfares ; Author, Atul Chandra Roy , page 142-143.) کتاب اے ہسٹری آف مغل نیوی اینڈ نیول وارفیئرز کا 7 واں باب؛  مصنف، اتل چندر رائے....مغربی ساحل پر مغل بحریہ کے بارے میں تفصیل سے بحث کرتے ہیں جو بنیادی طور پر سدیوں کے زیر انتظام تھا۔  پانیکر نے بجا طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ "پرتگالی اتھارٹی کے ٹوٹنے اور برطانوی بالادستی کے قیام کے درمیان کے وقفے میں، ہندوستانی بحری مفاد میں ایک قابل ذکر بحالی دیکھنے میں آئی۔ کیمبے اور جنجیرہ میں مغلوں کے ایڈمرلز نے تجارتی تحفظ کے لیے کافی مضبوط بحری طاقت تیار کی۔...

تقریب یوم بابری کے موقع بیگ راج صاحب کا خطاب

 تقریب یوم بابری در 14 فروری 2022 کے موقع پر بیگ راج کا خطاب