Skip to main content

آمیر تیمور کے متعلق لاٹ پادری کی یادشتیں

امیر تیمور 



حضرت امیر تیمور فردوس مکانی رحمۃ اللہ علیہ پر سلطانیہ کے لاٹ پادری کی یادشتیں
تحقیق و تحریر
ڈاکٹر عارف محمود چغتائی

نائب صدر بابری فورم پاکستان
03013353330 
امیر تیمور نے اپنی سرگزشت میں ایک جگہ سلطانہ کے لاٹ پادری کا ذکر کیا ہے جسے اس نے سفیر کے طور پر بادشاہ فرنگ کے پاس بھیجا تھا کہ وہ بادشاہ فرنگ سے معاہدہ کرائے کہ وہ اسے بحری جہاز دے تاکہ ان جہازوں کی مدد سے قسطنطنیہ فتح کر سکے اور اسی لاٹ پادری نے امیر تیمور اور بادشاہ فرنگ کے درمیان معاہدہ کرا دیا تھا کہ امیر تیمور بادشاہ فرنگ کو تانبہ دے گا اور اس کے عوض بادشاہ فرنگ امیر تیمور کو 500 بحری جہاز دے گا اس قسطنطنیہ والی مہم کا ذکر بعد میں کرونگا کہ امیر محترم کے بتائے ہوئے حل اور طریقہ سے ہی قسطنطنیہ فتح ہوا تھا اور سلطان یلدرم سے امیر تیمور کی جنگ کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ امیر تیمور قسطنطنیہ فتح کرنا چاہتا تھا اور قسطنطنیہ جانے کے لیے سلطان یلدرم کے علاقوں سے گزر کر جانا پڑتا تھا اور سلطان یلدرم امیر تیمور کے قسطنطنیہ جانے کے راستے میں مزاہم ہوا اور اس جنگ کا نتیجہ سلطان یلدرم کی جنگ میں شکست پر منتج ہوا
اب آتا اصل موضوع کی طرف کہ سلطانیہ کے اس لاٹ پادری نے غازی امیر تیمور کے بارے میں اپنے قلم سے کچھ یادداشتیں لکھی ہیں جو آج بھی پیرس کی نیشنل لائبریری میں موجود ہیں
یہاں ان مختصر یادداشتوں کو ہدیہِ قارئین کیا جاتا ہے
اس کا نام تیمور بیگ ہے تیمور کے معنی لوہے اور بیگ کے معنی سردار کے ہیں اس کے دشمن اسے تیمور لنگ کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ ایک جنگ میں اس کی ٹانگ کے پٹھے ناکارہ ہوگے تھے اس لیے وہ ایک پاوں سے لنگڑاتا ہے
ایران میں اسے میری تابام کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے فرمان فرما دوسرے لفظوں میں حکم دینے والا امر
اس شخص تیمور بیگ کے کئی بیٹے تھے لیکن اس وقت دو سے زیادہ نہیں ہیں ایک نام میران شاہ ہے 
جس کی عمر 40 سال ہوگی دوسرے کا نام شاہ رخ ہے اس کی عمر 22 سال ہے تیمور بیگ کے اکثر بیٹے جنگوں میں مارے گئے
میران شاہ کی 4 بیویاں ہیں اور 4 بیٹے ہیں اس کے بیٹے بڑے ہیں اور ہر ایک کے پاس 20، 30 ہزار تک سپاہی ہیں اور یہ چاروں کے چاروں بیٹے اپنی اپنی جگہ گویا بادشاہ ہیں تاہم سبھی اپنے دادا تیمور بیگ سے ڈرتے ہیں اور انہیں یہ خبر ہے کہ اگر انہوں نے اس کے احکام کے خلاف کام کیا تو اس کی انہیں سزا بھگتنا پڑے گی
تیمور بیگ اگرچہ خاصی عمر کا ہے تاہم بہت قوی اور سفر اور جنگ سے ہرگز نہیں تھکتا اور شب صحرا میں بسر کرتا ہے
کہتے ہیں کہ تیمور بیگ جوانی میں بہت خوبصورت تھا اور آج بھی جو اسے دیکھ لے وہ اس بات کی تصدیق کرے گا
تیمور بیگ کی دولت اس قدر ہے کہ وہ سطح زمین کو سونے کے سکوں سے ڈھانپ سکتا ہے اس کے خصوصی باورچی خانے کا روز کا خرچ ہزار مشقال سونا ہے
اس کے زیر تصرف علاقوں کی وسعت اس قدر زیادہ ہے کہ اگر کوئی مسافر اس کے ملکوں یعنی علاقوں کے مشرق سے سفر شروع کرے تو اگر وہ ایک سال تک مسلسل چلتا رہے تب کہیں ممکن ہے کہ وہ اس قلمرو کے مغرب تک پہنچ جائے
اس تمام وسیع قلمرو میں مسافروں اور فافلہ والوں کے لیے پورا پورا امن سکون مہیا ہے اور اگر تیمور بیگ کے زیر تصرف کسی علاقے میں کوئی قافلہ رہزنوں کی لوٹ کا شکار ہو جاتا ہے تو اس علاقے کے سردار کو تیمور بیگ کے حکم سے قتل کردیا جاتا ہے اس لیے کہ تیمور بیگ کا عقیدہ ہے کہ جب تک کسی علاقے کا سردار راہزنوں سے ملا ہوا نہ ہو وہ شاہراہ میں قافلہ والوں کو لوٹنے کی جرات نہیں کرسکتے
جب سے یہ شخص صاحب قوت (حکمران) بنا ہے اس وقت سے آج تک تمام جنگوں میں وہ فاتح ہی ہوا ہے اور کوئی بھی بادشاہ اور کوئی بھی جنگی قلعہ اس کے مقابلے میں ڈٹ نہیں سکا
دنیا میں اس سے زیادہ بے بے رحم کوئی شخص نہ ہوگا یہاں تک کہ اس کے سامنے لاکھوں مرد و زن اور بچوں کے سر کاٹ کر دیے جائیں تو بھی اس پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوگا بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کسی شہر کے تمام مکینوں کو قتل کروا دیا
تیمور بیگ دین اسلام کے احکام کے اجرا میں بظاہر بڑا پابند ہے وہ ہر شب و روز پانچ وقت کی نماز پڑھتا اور ماہ رمضان میں روزے رکھتا ہے میں نے اسے شراب پیتے نہیں دیکھا تاہم اتنا میں نے سنا ہے کہ کبھی کبھی چھپ کر میخوار کر لیتا ہے
اگر تیمور بیگ چاہے تو دس لاکھ آدمی جنگ کے لیے تیار کرسکتا ہے اس کے اپنے گھوڑوں کی تعداد جو اس کی اپنی صحرائی زمینوں میں چرتے رہتے ہیں 20 لاکھ ہے اس کے اونٹوں کی تعداد تو حساب سے باہر ہے
جب سے اس نے ہندوستان کی سر زمین کو اپنی قلمرو کا حصہ بنایا ہے تب سے اس کے پاس ہر وقت بچاس سے 100 تک ہاتھی موجود رہتے ہیں تاہم یہ ہاتھی صرف تکلفات اور شان و شوکت کے اظہار کے کام آتے ہیں
تیمور بیگ کو عربی، فارسی اور ترکی پر عبور حاصل ہے اور علم قرآن اور علم فقہ اسلامی میں وہ زبردست دسترس کا مالک ہے کوئی بھی مسلمان عالم اس سے بحث نہیں کرسکتا
تیمور بیگ کے محلات کی تعداد 100 سے زیادہ ہے سمرقند میں اس کے اٹھارہ، کش (شہر سبز) میں بیس، بغداد میں پندرہ،اصفہان میں بارہ، اور شیراز میں سات محل ہیں
جس روز اس نے بغداد فتح کیا اس روز سونے کا ایک درخت اس کے ہاتھ لگا جس کے تمام پتے جواہر کے تھے اور کوئی بھی اس سونے کے درخت اور جواہر کی قیمت کا تعین نہ کرسکا
تیمور بیگ جنگ میں اپنے سپاہیوں کی مانند زرہ بکتر پہنتا ہے اور میدان کارزار میں داخل ہوتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا ہرچند وہ کئی مرتبہ شدید زخمی ہوا اور سرحد مرگ تک جا پہنچا پھر بھی وہ مرگ سے نہیں ڈرتا اور جنگوں میں خود بھی شریک ہوتا ہے
اس کی نظر میں دشمنی کے موقع پر افراد کے مرتبہ و مقام کی کوئی اہمیت نہیں چنانچہ وہ بڑے بڑے امرا کے سر کاٹنے اور پیٹ پھاڑنے کا حکم کچھ اس طرح صادر کرتا تھا جیسے وہ بہت ہی معمولی غلام ہوں
وہ صرف علما اور شعرا کی وقت کا قائل ہے اور ان کا احترام کرتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی دانش مند ہے
جس روز سے میری ملاقات تیمور بیگ سے ہوئی میں نے اسے صحرا ہی میں زندگی بسر کرتے پایا ہے جہاں وہ خیمے میں سوتا ہے میرا خیال ہے کہ وہ اس وجہ سے ہمیشہ صحرا میں سوتا رہتا ہے کہ اس کی فوج کی تعداد اس حد تک زیادہ ہے کہ وہ کسی بھی شہر میں سکونت اختیار نہیں کرسکتا
تیمور بیگ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتا اور زمین پر ہی سوتا ہے اسے میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت نہیں ہے
اس کی غذا گوشت اور کبھی چاول ہے اور کبھی گھوڑے کے دودھ سے تیار کردہ دہی پینے میں وہ گھوڑے ہی کا دودھ استعمال کرتا ہے یا پھر شہد کا شربت جشنوں کے موقع پر اس کے لیے گھوڑے کا بچھڑا بھونا جاتا ہے اور گھوڑے کے بچھڑے کے کباب اہل خوارزم کی ایک لذیذ غذا ہے کھانا کھاتے وقت دسترخوان ایک خیمے میں بچھایا جاتا ہے جس کے پانچ ستون ہوتے ہیں تیمور بیگ دسترخوان کے آغاز میں بیٹھا ہے اور دوسرے یعنی اس کے بیٹے پوتے اور سردار طرح بیٹھتے ہیں کہ ان میں اور تیمور بیگ میں چند گز کا فاصلہ رہے جتنے بھی برتن دسترخوان پر رکھے جاتے ہیں سبھی خالص سونے کے ہوتے ہیں کھانا کھاتے وقت کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تاوقتیکہ تیمور بیگ خود اسے مخاطب کرے
اگر تیمور بیگ کا کوئی مہمان عیسائی ہو تو اسے وہ اجازت دے دیتا کہ وہ کھانے کے ساتھ شراب پی لے تاہم وہ خود شراب پینے سے بچتا اور اس کے بیٹے اور پوتے بھی شراب پینے کے مجاز نہیں ہوتے
دنیا کے کسی بھی خطے میں تیمور بیگ کی فوج کا سا نظم و ضبط نہیں ہے تیمور بیگ کی فوج کے افسر کوئی دس گنا نسبت سے ایک دوسرے پر برتر ہیں دس سپاہیوں کا کمانڈر کو اون باشی، سو سپاہیوں کے کمانڈر کو لوزباشی، ہزار سپاہیوں کے کمانڈر کو مین باشی اور دس ہزار سپاہیوں کے کمانڈر کو تومان باشی کہتے ہیں
اگر ایک مین باشی جس کی کمان میں ایک ہزار سپاہی ہیں یہ حکم دے کہ آگ میں کود جائیں تو وہ اس وقت کسی جھجک کے بغیر اس کا حکم بجا لائیں گے اور ہر سپاہی کو یہ علم ہے کہ اگر وہ اپنے کمانڈر کا حکم ماننے میں ٹال مٹول سے کام لے گا تو اس کی زندہ کھال ادھیڑ دی جائے گی تیمور بیگ کی فوج میں نظم و ضبط اس حد تک کڑا ہے کہ اگر ایک سپاہی کسی حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھا ہے تو وہ خنجر سے اپنی شاہ رگ کاٹ لیتا اور یوں خودکشی کرلیتا تاکہ وہ سزاؤں میں نہ جکڑا جائے
جب تیمور بیگ کسی شہر میں قتل عام اور لوٹ مار کا فرمان جاری کرتا ہے تو سیاہ جھنڈا لہرا دیتا ہے اور جس شہر میں تیمور بیگ کا سیاہ پرچم لہرایا گیا بس پھر وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا
جن دنوں تیمور بیگ روم گیا راستے میں ارمنستان اور انگوریہ کے درمیان واقع ایک شہر کا محاصرہ کرلیا جب اس نے شہر پر قبضہ کرلیا تو وہاں کے تمام باشندوں کو وہاں کے کنووں میں پھنیکوا دیا اور اس شہر کے تمام کنووں کو اس نے زندہ پھینکے گئے لوگوں کی لاشوں سے بھر دیا
جن شہروں کے لوگ کسی جنگ کے بغیر اس کی اطاعت قبول کرلیتے ہیں ان کی جان و مال اور ناموس محفوظ رہتے ہیں اور اگر ایسے شہروں میں کوئی سپاہی کسی ایک عورت سے دست درازی کرتا ہے یا کسی کے مال پر قبضہ جما لیتا ہے تو وہ سپاہی براہ راست کمانڈر تیمور بیگ کے حکم سے قتل کر دیا جاتا ہے چنانچہ اسی باعث جب کوئی شہر تیمور بیگ کے محاصرے میں اجاتا ہے تو وہ شہر اطاعت قبول کرلیتا ہے سوائے ان شہروں کے جن کے سلاطین تیمور بیگ کے مطیع ہونا نہیں چاہتے
جس چیز کے سبب تیمور بیگ دنیا بھر میں قوی ترین انسان بنا وہ بارود ہے
تیمور بیگ بارود بنانے کے بھید سے آگاہ ہے وہ تمام بڑی جنگوں میں بہت سا خام بارود ساتھ لے کر جاتا تھا اور جن قلعوں کو فتح کرنا چاہتا ان کے نذدیک ہی بارود تیار کرتا اور متعلقہ قلعے کی دیوار کو بارود سے اڑا دیتا
میرا خیال نہیں کہ دنیا میں کوئی تیمور بیگ جتنا بے رحم آدمی آیا ہوگا اور شاید ہی آئندہ آئے
جب اس نے دمشق کا محاصرہ کیا تو اہل شہر کو پیغام بھجوایا کہ اطاعت قبول کرلو اور میری فوج کے لیے دروازے کھول دو و گرنہ تم ہلاک کر دیے جاو گے
شہر کے باشندوں نے دمشق کے حکمران قوتول حمزہ کے خوف سے اطاعت کی جرات نہ کی اور اگرچہ قوتول حمزہ کے پاس بڑی بڑی جنگی گاڑیاں بھی تھیں پھر بھی وہ تیمور بیگ کو شہر کے گرد سے ہٹا نہ سکا
تیمور بیگ شہر کی فصیل کو بارود سے اڑا کر شہر میں داخل ہوگیا
مسجد عمر کے سامنے ایک بہت بڑے مسلمان عالم نظام الدین شامی نے عاجزی اور انکسار سے تیمور بیگ سے درخواست کی کہ وہ قتل عام سے ہاتھ اٹھا لے لیکن تیمور بیگ چلایا اگر تو اہل علم نہ ہوتا تو میں حکم دیتا کہ تیری زندہ کی کھال کھینچ لی جائے اس کے بعد اس نے دمشق کے اتنے لوگوں کا قتل عام کیا کہ سوائے صنعت کاروں، دانش مندوں اور شعرا کے کوئی نہ بچا اور دمشق سے اس نے دو ہزار اونٹوں پر زر و سیم، جواہر قمتی کپڑے اور قیمتی قالین لاد کر اپنے وطن ماوراء النہر بھجوا دیے
پھر اسی خونخوار اور بے رحم آدمی نے دمشق ہی میں مسلمان علماء کی ایک بہت بڑی کانفرنس بلائی تاکہ اس میں قرآن کے بارے بحث کی جائے
تیمور بیگ کے دربار کی شان و شوکت کسی دوسرے بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی جو چیز تیمور بیگ کے دربار کو پرشکوہ بناتی ہے وہ اس دربار میں گروی شدہ لوگوں کی موجودگی ہے جو اپنے خوبصورت علاقائی لباسوں میں ہوتے ہیں
تیمور بیگ کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنے کسی باج گزار بادشاہ یا امیر کے جوان بیٹے یا جوان بھائی کو گروی رکھ لیتا (یعنی ضمانت کے طور پر رکھ لیتا) یہ لوگ اس کے دربار میں رہتے ہیں اور کوئی بھی انہیں روک ٹوک نہیں کرتا اور ان شہزادوں یا آمیر زادوں میں سے ہر ایک کا تیمور بیگ کے دربار میں اپنا ایک خاص دربار ہے (یعنی تیمور بیگ کا دربار اقوام متحدہ ہے)
تیمور بیگ کے دربار میں ہندوستان، ایران، شام، روم (ترکی)، اور قیچاق (وہ ملک جو قفقازیہ کوہ کاف کے پہاڑوں کے شمال میں واقع تھا) کے تمام سلاطین اور امراء کے ضمانتی موجود ہیں
کبھی ایسا اتفاق بھی ہوا کہ یہ لوگ تیمور بیگ کی خاطر جنگ میں شریک ہوئے اور حتیٰ کہ قتل بھی ہوئے
تیمور بیگ بڑے بڑے شہروں مثلاً اصفہان، بغداد، اور دمشق وغیرہ سے لوٹ مار (مال غنیمت) کے نتیجے میں ملنے والی دولت کے علاوہ ان تمام ممالک سے جو اس کی قلمرو سلطنت میں شامل ہیں بادشاہوں اور حکام کی مجموعی آدمی کا دسواں حصہ عشر بھی وصول کرتا اور مذکورہ آمدنی سے وہ اپنے افسروں اور سپاہیوں کو تنخواہ دیتا ہے
تیمور بیگ کے تمام افسر اور سپاہی اس سے تنخواہ لیتے ہیں اور اگر تیمور بیگ کو یہ پتا چل جائے کہ اس کے کسی افسر یا سپاہی نے کسی دکاندار یا آدمی سے کوئی چیز زبردستی لی ہے اور اس کی قیمت نہیں دی تو وہ اسے قتل کردیتا 
تیمور بیگ ایک ایسا آدمی ہے جسے اپنے دین پر ایمان ہے اور دن میں پانچوں وقت خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو نماز پڑھتا ہے اس کی ایک ایسی مسجد ہے جس کے حصے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور جہاں کہیں بھی پڑاو ڈالنا پڑے ان حصوں یا ٹکڑوں کو باہم ملادیا جاتا ہے اور اس مسجد پھر تیمور بیگ نماز پڑھتا ہے
تیمور بیگ شراب نہیں پیتا اور ہر اس چیز سے دور رہتا ہے جو دین اسلام کے احکام کے خلاف ہو
اگرچہ کہ وہ ان چیزوں سے بچتا ہے جن کا شمار دین اسلام کی منع کردہ چیزوں میں ہوتا ہے تاہم شراب خواری اور بازاری عورتوں کے معاملے سے بچتا ہے جن کا شمار دین اسلام کی منع کردہ چیزوں میں ہوتا ہے تاہم شراب خواری اور بازاری عورتوں کے معاملے میں وہ سخت گیر نہیں ہے البتہ قوم لوط والے گناہ (اغلام بازی) سے سخت متنفر ہے اور جو کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے اسے وہ قتل کرا دیتا ہے
تیمور بیگ کو شیشے کے برتن پسند ہیں شیشے کے گلاس میں پانی پینے کا اسے چسکا ہے وہ پیٹو نہیں ہے اور کھانا کھانے میں حد اعتدال سے باہر نہیں نکلتا وہ اس چیز کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بعض کھانوں میں بالخصوص چاولوں میں زعفران ڈالا جائے
تیمور بیگ بائیں پاوں سے لنگڑاتا ہے اور دنیا کا کوئی معالج اس کے بائیں کا جو ایک جنگ میں زخمی ہوگیا تھا علاج نہیں کرسکا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاوں کے پٹھے کٹ گئے تھے اگرچہ یہ شخص بائیں پاوں سے لنگڑاتا ہے اور اب بوڑھا ہوچکا ہے پھر بھی چست ہے اور اس کے جسم میں کوئی معمولی سی بھی سستی دکھائی نہیں دیتی ہاں اس کے سر کے بال کسی قدر سفید ہو چکے ہیں
دنیا میں شائد ہی کوئی آدمی ہوگا جس کا حافظہ تیمور بیگ کے حافظے سے زیادہ ہو اور اس کی کامیابی کے عوامل میں سے ایک عامل اس کا قوی حافظہ ہے اگر وہ صبح سے شام تک اپنے ایک سو افسر اور سرداروں کو بار دے اور ان میں سے ایک کے لیے کوئی فرمان صادر کرے جو کسی دوسرے کو دیے گئے فرمان سے مختلف ہوگا تو اسے اپنے وہ تمام فرمان یاد ہونگے اور اسے یہ معلوم ہے کہ کس کس موقع پر اس کے احکام جاری ہونے چاہئیں اگر کوئی کسی امر کے بجا لانے پر مامور ہوا ہے اور مقررہ وقت پر اسے وہ بجا نہیں لایا تو اسے قتل کردیا جائے گا
یہ بات تیمور بیگ کے اردگرد رہنے والے سبھی لوگوں کو معلوم ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے کسی کام ذمہ داری لے لی اور اسی مقررہ وقت پر نہ نبھایا تو ان کی موت یقینی ہے تاہم اگر فرمان حاصل کرنے کے دران کوئی معاملے کی مشکل کا ذکر کردے اور اس کی انجام دہی کے لیے تیمور بیگ سے طویل مہلت چاہے تو وہ اسے دے دیتا ہے
چونکہ سب کو معلوم ہے کہ تیمور بیگ کسی کام کے مقررہ وقت پر کرنے میں ذرا بھی تاخیر کو روا نہیں جانتا اس لیے ہر وہ شخص جو کسی کام پر مامور ہوا ہے کو کوشش کرتا ہے کہ اسے مقررہ پر مکمل کردے
جن دنوں تیمور بیگ کش کا شہر تعمیر کرنے میں مصروف تھا اس نے شہر کے دو معماروں کے سر کاٹ ڈالے کیوں کہ شہر کے ایک حصے کی تعمیر اس نے ان کے سپرد کر رکھی تھی اور وہ وقت مقررہ پر وہ عمارات مکمل نہ کرسکے تھے
ایک موقع پر تیمور بیگ جنگ سے واپس آیا اور شہر کش کا معائنہ کرنے چلا گیا وہاں اس نے دیکھا کہ عمارتیں مکمل نہیں ہوئیں معماروں نے کہا کہ اگر امیر تیمور انہیں صرف دو مہینے کی مہلت دے دے تو وہ عمارتیں مکمل کر دیں گے لیکن تیمور بیگ نے ان کی درخواست قبول نہ کی اور دونوں کے قتل کا حکم دے دیا اور اس کام (قتل) کے لیے بھی دو دوسرے معمار مقرر کیے
سفروں اور میدان جنگ میں تیمور بیگ اپنے افسروں اور سپاہیوں کو تمام تھکاوٹوں اور محرومیوں میں شریک ہوتا ہے اور لوگوں کو اس کا علم تھا
تیمور بیگ کے ہر افسر اور سپاہی کو یہ خبر ہے کہ اگر وہ دلیری کا مظاہرہ کرے گا تو اس کا اسے انعام ملے گا اور اگر سستی سے کام لے گا تو اسے سزا ملے گی
تیمور بیگ کی فوج میں دران جنگ سستی اور بزدلی اس حد تک ننگ سمجھی جاتی ہے کہ کوئی بھی افسر اور سپاہی جنگ میں سستی سے کام نہیں لیتا اور ایسا تیمور بیگ کی طرف سے کسی خوف سے نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے سامنے شرمندہ ہونے کے ڈر کے باعث ہوتا ہے
بڑی بڑی اور خطرناک جنگوں میں تیمور بیگ اپنی فوج کی سربراہی کے لیے جانشین مقرر کرنے کے بعد صف اول میں رہے کر لڑتا ہے
کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اسے مہلک زخم لگے اور اس کے گرد موجود سپاہی اسے میدان جنگ سے اٹھا کر لے گئے تاکہ وہ گھوڑوں کے سموں تلے نہ کچلا جائے
لیکن پھر بھی اس نے جنگ میں شرکت کی میدان جنگ میں اس کی دلیری کا یہ عالم ہے کہ افسروں اور سپاہیوں کی رگوں میں خون بھی جوش میں لے آتا ہے اور انہیں ہر قسم کی فدا کاری پر تیار کرلیتا ہے یہ اس کی دلیری کا نتیجہ تھا کہ اس نے اپنے پانچ سو جان نثاروں کے ہمراہ کے ہمراہ جو جان کی بازی لگا گئے دہلی جیسے شہر کو ہندوستان کا پایہ تخت تھا فتح کر لیا
میں نے ایک موقع پر اتفاقیہ طور پر تیمور بیگ کی میدان جنگ میں شرکت اور اس میدان سے واپسی کا نظارہ کیا ہے اور مجھے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ شخص دلیران جہاں سے ہے
اس روز جب وہ میدان جنگ سے لوٹا تو میں نے دیکھا کہ وہ سر تا پا سرخ ہورہا ہے اور اس کی تلوار خون سے لتھڑی پڑی ہے خون اس کی تلوار پر جم چکا ہے اور وہ نیام میں داخل نہیں ہو رہی جب اس نے جنگی لباس جسم سے اتارا تو اس پر چند زخم تھے جن کی مرہم پٹی کردی گئی اور اس کا لباس نہر کے کنارے لے جایا گیا تاکہ اسے دھو کر خون صاف کردیا جائے
جب تیمور بیگ نے مجھے فرنگ بھیجا تو اس سے پہلے وہ داڑھی مونڈا کرتا تھا لیکن جب میں فرنگ سے واپس آیا تو اس نے داڑھی بڑھا رکھی تھی اور اس کی داڑھی میں سفید بال نظر آ رہے تھے
موسم سرما میں اس کی سفید کلاہ نمدے سے تیار کی جاتی اور موسم گرما میں اس سفید کلاہ ریشمی کپڑے سے بنائی جاتی ہے اور اس خاطر کہ وہ ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک بیٹھے اس میں استر رکھا جاتا ہے نیز اس کی کلاہ میں ہمیشہ الماس (ہیرہ) اور یاقوت ٹنکے اور چمکتے رہتے ہیں لباس کے سلسلے میں تیمور بیگ کو سفید، پیلا اور سرخ رنگ پسند ہے شاید ہی کبھی ایسا اتفاق ہوا ہو کہ اس نے لکیردار کپڑا پہنا ہو موسم گرما میں اس کا لباس زرد یا سفید ریشمی کپڑے سے تیار کیا جاتا ہے جب کہ بہار اور خزاں میں موٹے موٹے سرخ کپڑے پہنتا ہے موسم سرما میں وہ لباس قمیض کے اوپر سنجاب (ایک جانور جو دانہ خور اور چبا کر کھاتا ہے بلی سے تھوڑا لمبا اور بالوں سے پردم، رنگ نیلا اور خاکستری،یا سفید کھال نرم و نازک، جنگلوں میں اور زیادہ تر درختوں پر رہتا ہے اس کی نرم پشم دار کھال کے لیے اس کا شکار کیا جاتا ہے زیادہ تر ترکستان میں ہوتا ہے) کھال کی فتوحی پہنتا ہے موسم سرما میں بھی وہ موسم گرما کی ماند صحرا ہی میں ٹھکانا کرتا ہے
تیمور بیگ کو عطر پسند ہے اس کے لیے دنیا کے دور دراز علاقوں سے انتہائی مہنگے عطر لائے جاتے ہیں جو کوئی بھی اس کے خیمے کے نذدیک جاتا ہے اسے خیمے کے باہر ہی سے خوشبو آنے لگتی ہے
جب بھی کوئی غیر ملکی امراء تیمور بیگ کے پاس آتے ہیں تو وہ خاک سر پر گرا کر اپنا سر زمین پر رکھ کر دیتے ہیں تاہم تیمور بیگ کو ان کے اس عمل سے نفرت کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ صرف خدا کو سجدہ کرنا چاہیے خدا کے سوا کوئی بھی اس لائق نہیں کہ اسے سجدہ کیا جائے
اس کے بعد سے جو کوئی بھی تیمور بیگ کے پاس جانا چاہتا اس سے کہہ دیا جاتا کہ وہ سجدہ کرنے سے پرہیز کرے تو جب کوئی اس کے نذدیک پہنچتا ہے تو صرف ایک زانو زمین پر رکھتا ہے دوسرے ملکوں کے سفیر بھی جب اس کے پاس آتے ہیں تو اسی انداز میں اس کا احترام بجا لاتے ہیں اور تیمور بیگ ان کو بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے
میدان جنگ میں تیمور بیگ کے خیمے اور افسروں کے خمے میں کوئی فرق نہیں ہوتا تاہم جہاں کہیں وہ پڑاو ڈالنا چاہتا ہے وہاں اس کے لیے گراں بہا خیمے لگا دیے جاتے ہیں یا پھر یورت نصیب کردیا جاتا ہے اس کے پرشکوہ خیمے اور یورت کی قیمت ایک ملک کے خراج کے برابر ہوتی ہے
تیمور بیگ کے خیمے کے اوپر پرچم کی صورت زربفت کے اور سرخ پارچہ جات لگائے جاتے ہیں جب ہوا چلتی ہے اور پارچہ جات ہلنے لگتے ہیں تو اس سے ایک بڑا ہی خوبصورت منظر جنم لیتا ہے
تیمور بیگ کے خیمے کے اندرونی حصے کو موسم کے مطابق سنہری اور ارغوانی پارچہ جات یا کشمیری شالوں اور انتہائی نفیس قالینوں سے آراستہ کیا جاتا ہے
جس روز ہسپانیہ میں واقع ملک کاستیل کے بادشاہ ہنری سوم کا سفیر سمرقند میں تیمور بیگ کے پاس آیا ہے اس روز میں وہیں تھا
مذکورہ سفیر کا نام گونزالزویخو تھا یہ دوسرا سفیر تھا جو ہنری سوم نے تیمور بیگ کے پاس بھیجا تھا پہلا سفیر اس نے اس وقت بھیجا تھا جب تیمور بیگ یلدرم بایزید کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا وہ سفیر جنگ انگوریہ میں وہاں موجود تھا جہاں اس نے تیمور بیگ اور اس کے سپاہیوں کی دلاوری کا مظاہرہ دیکھا اور جب اس سفیر نے کاستیل واپس جانا چاہا تو تیمور بیگ نے بادشاہ کاستیل پیش کرنے کی خاطر اسے اس قدر گراں بہا اشیاء دیں کہ ان کے اٹھانے کے لیے بیس اونٹ درکار ہوئے انکے علاوہ تیمور بیگ نے اس سفیر کے زریعے کاستیل کے بادشاہ کو اپنی دو عیسائی کنیزیں بھی بھجوائیں جو بہت حسین تھیں
چنانچہ ہسپانیہ میں کاستیل کا بادشاہ ہنری سوم تیمور بیگ کی عظمت و سخاوت کا کچھ اس کدر گرویدہ ہوا کہ اس نے بعد میں اپنا ایک سفیر تیمور بیگ کے پاس بھیجا میں نے اس سفیر کو 1403 میں تیمور بیگ کی وفات سے دو برس پہلے دیکھا تھا
اس روز سفیر مذکور نے اپنا سب سے عمدہ پہنا اور وہ تحفے جو وہ بادشاہ کاستیل کی طرف سے لایا ہوا تھا اس نے اپنے ہمراہیوں کو دیے یہ ہمراہی سفیر سے آگے آگے چل رہے تھے تاآنکہ وہ تیمور بیگ کے محل کے قریب پہنچ گئے
اس جگہ تیمور بیگ کے چند ملازم موجود تھے جنہوں نے کاستیل کے سفیر کا استقبال کیا اور سفیر اور اس کے ساتھیوں کو گھوڑوں سے اتارا ان ملازمین نے مذکورہ تحفے ان لوگوں سے لے لیے پھر ان تحفوں کو دو ہاتھوں پر رکھ کر وہ احترام سے کے ساتھ آگے بڑھے تاآنکہ وہ تیمور بیگ کے محل کے دوسرے تنگ رستے تک پہنچ گئے وہا چھ ہاتھی نظر آئے جو سنہری اور سرخ زینوں وغیرہ سے آراستہ تھے اور ہر ہاتھی پر ہندوستان کے درخت نوفل کی لکڑی سے بنا ہوا ایک کجاوہ تھا بادشاہ کاستیل کے تحفے کجاووں میں رکھے گئے ہاتھی چل پڑے یہاں تک کہ وہ محل کے تیسرے تنگ راستے تک پہنچ گئے
اس جگہ پہنچ کر تحفے کجاووں سے نکال لیے گئے یہاں تیمور بیگ کے تین پوتوں نے مذکورہ سفیر کا استقبال کیا تیمور بیگ کے دربار کے ایک امیر نے سفیر کا بازو تھاما اور یوں یہ سب لوگ اس بڑے کمرے کی طرف چلے جہاں تیمور بیگ بیٹھا ہوا تھا
کاستل کا بادشاہ کے تحائف ہاتھوں پر سے اٹھا کر تیمور بیگ کے چند خادموں کے ذریعے آگے پہنچائے گئے تحائف کے پیچھے پیچھے تیمور بیگ کے تین پوتے چل رہے تھے اور ان کے پیچھے سفیر کاستیل اس حالت میں قدم اٹھا رہا تھا کہ اس کے بازو کا نچلا حصہ امیر نے تھام رکھا تھا اس کے بعد اس کے ملازم چل رہے تھے تاآنکہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں تیمور بیگ بیٹھا نظر آ رہا تھا
یہاں پہنچ کر کاستیل کے بادشاہ کے سفیر نے ایک گھٹنا زمین پر رکھا اور اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر وہ تیمور بیگ کی تعظیم بجا لایا اور کچھ دیر اسی حالت میں رہ کر اٹھ کھڑا ہوا
جب چند قدم اور چلا تو پھر اس نے گھٹنا زمین پر رکھا اور تعظیم بجا لایا
غرض جب تک مذکورہ سفیر تیمور بیگ تک پہنچے اس نے سات مرتبہ گھٹنا زمین پر رکھا اور تعظیم بجا لایا جب وہ سفیر تیمور بیگ کی خدمت میں پہنچا تو وہ تحائف جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا تیمور بیگ کے سامنے زمین پر رکھے ہوئے تھے
تیمور بیگ عربی زبان میں سفیر سے جو یہ زبان سمجھتا تھا اور تیمور بیگ کو اس کا پتہ تھا پوچھا ہمارے فرزند عزیز بادشاہ کاستیل کا جس کے بارے ہم جانتے ہیں کہ وہ فرنگ کا سب سے بڑا بادشاہ ہے کیا حال ہے
سفیر نے جواب دیا اس کا حال بہت اچھا ہے اور وہ خدا سے امیر بزرگوار کے لیے صحت و سلامتی اور طویل عمر کی دعا کرتا ہے
اس کے مذکورہ سفیر نے اپنے بادشاہ کی طرف سے بھیجا ہوا خط تیمور بیگ کے ہاتھ میں دیا امیر تیمور نے خط لیا اور سفیر سے پوچھا کہ یہ کس زبان میں لکھا ہوا ہے
سفیر نے جواب دیا ہسپانوی زبان میں
امیر تیمور بولا یہاں ہمارے پاس تیرے اور تیرے ساتھیوں کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ہسپانوی زبان پڑھ سکے بہر حال ہم کھانا کھانے کے بعد یہ خط پڑھیں گے
اس پر تیمور بیگ کے خادموں نے بادشاہ کاستیل کے بھیجے ہوئے تحائف جو اس وقت اس عظیم آدمی (تیمور بیگ) کے آگے پڑے ہوئے تھے وہاں سے لے جانے کے لیے اٹھا لیے تیمور بیگ نے سفیر سے کہا اگر تو ان تحفوں کے بغیر بھی میرے پاس آتا اور مجھے بادشاہ کاستیل کی صحت و سلامتی کی خوشخبری سناتا تو بھی میں خوش ہوتا 
اس وقت تک سفیر اور اس کے ہمراہی کھڑے رہے جب وہ تحفے لے جا چکے تو تیمور بیگ نے اس بات کی اجازت دے دی کہ سفیر کاستیل اور سفارتی ارکان میں سے ایک رکن جو مرتبہ کے لحاظ سے سفیر کے بعد سب سے ممتاز ہو اس کے دائیں جانب بیٹھے اور باقی تمام سفارتی ارکان کو اجازت دے دی گئی کہ وہ امیر تیمور کے بائیں جانب سات گز کے فاصلے پر بیٹھ جائیں
خود تیمور بیگ ایک گدے پر التی پالتی مارے بیٹھا تھا سر پر اس نے سفید نمدے کی ٹوپی پہن رکھی تھی جو رنگارنگ جواہر سے مرصع تھی اور سفیدی کے ساتھ ساتھ اس میں سیاہی بھی تھی
اب کھانا لایا گیا یہاں میں (لاٹ پادری) یہ بتانا چاہتا ہوں کس قدر کھانا لایا گیا اور سفیر کاستیل کی دعوت کے لیے جو کھانے تیار کیے گئے وہ کتنی قسموں کے تھے تو اس کے لیے مجھے بہت سے صفحات سیاہ کرنے پڑیں گے
بہرحال اس روز جو کھانے آگے رکھے گئے ان میں چند ایک یہ تھے کھال میں بھنی ہوئی بکریاں اور گھوڑوں کے بچھڑے جنہیں بیابان کے خشک پودوں کی آگ کے نیچے بھونا گیا تھا
گھوڑے کے بچھڑے کے کباب ماوراء النہر کے صحرا نشینوں کی ایک بہترین غذا ہے گھوڑے کی آنتیں وغیرہ باہر نکال لی جاتی ہیں اور انہیں دھودھا کر صاف کرلیا جاتا ہے پھر یہ سب چیزیں دل گردے جگر پھیپھڑے اور آنتیں وغیرہ دوبارہ اس کے پیٹ میں ڈال دی جاتی ہیں اس کے بعد کسی قدر گھی اور خوشبودار سبزیاں ڈال کر پیٹ کو سی دیا جاتا ہے اب اس بچھڑے کو اس کی کھال ڈال کر کھال کو بھی سی دیا جاتا ہے آخر میں وہ بچھڑا بیابان کے خشک پودوں کی آگ کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے میں نے یہ کھایا بڑا لذیذ ہے
گھوڑے کے بھنے ہوئے بچھڑوں کو بڑی بڑی ٹرے میں جنہیں چند آدمی اٹھائے ہوئے تھے رکھ کر لایا گیا پھر انہیں زمین پر رکھ کر گوشت کے ٹکڑے کیے گئے ران کا گوشت تیمور بیگ، کاستیل کے سفیر اور دوسرے رکن کے سامنے رکھا گیا
اس طرح بچھڑے کی آنتیں اور دل گردے وغیرہ ان کے سامنے رکھے گئے اس روز دو سو سے زیادہ بھیڑیں اور گھوڑے کے بچھڑے بھونے گئے جو سفارت ہسپانیہ کے تمام ارکان کے ایک سال بلکہ اس سے زیادہ کی خوراک کے لیے بھی کافی تھے
کھانا کھانے کے دران مہمانوں کو پینے کی اشیا سونے کے برتنوں میں دی گئیں تیمور بیگ اور اس کے دربار کے امراء پینے والی اشیاء میں صرف گھوڑی کے دودھ اور دہی لسی پیتے ہیں
کھانا کھا چکنے کے بعد بادشاہ کاستیل کے سفیر نے مذکورہ خط تیمور بیگ کو سنایا تیمور بیگ نے خط کے مضامین سن کر خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ وہ ایک سفیر کے ہاتھ کاستیل کے بادشاہ کے لیے تحائف اور اس کے خط کا جواب ہسپانیہ ارسال کرے گا
اس روز سات دن یعنی 15 ستمبر 1403 تک تیمور بیگ ہر روز اپنے کسی ایک محل میں اس سفیر کے اعزاز میں دعوت کرتا رہا اور ہر مرتبہ دعوت کے تکلفات گزشتہ روز کی نسبت بدلے ہوئے ہوتے
پہلے روز مرصع زینوں سے آراستہ ہاتھیوں کے ساتھ سفیر کا استقبال کیا گیا دوسرے روز اسپ ہائے یدک (ایسا گھوڑا جس پر زین تو ہو لیکن کوئی سوار اس پر نہ بیٹھے اس کے منہ پر تھوتھنی چڑھا دی جاتی ہے ایک پیادہ آدمی یا دوسرے گھوڑے پر سوار آدمی اس کی لگام تھام لیتا ہے اور اسے چلاتا ہے قدیم میں ایسے گھوڑے بادشاہوں یا امراء کی سواری کے آگے آگے چلا کرتے تھے) کے ساتھ اس کا استقبال کیا گیا اور ان سب گھوڑوں کی زین و برگ مرصع (جڑاو) تھی
تیسرے روز خوبصورت خچروں اور چوتھے دن قوی ہیکل اونٹوں سے جن کا سارا ساز و سامان مرصع تھا سفیر کی پذیرائی کی گئی اور ہر روز سفیر کے استقبال اور دعوتی تکلفات میں تبدیلیاں کی گیی
درباری دعوتوں کے بعد سفیر نے موسم سرما ماوراء النہر میں گذارا اور موسم بہار میں اپنے ملک کی راہ لی
میں یہ سوچ رہا تھا کہ دنیا میں شاید ہی کبھی کوئی ایسا بادشاہ آئے گا جو قوت و طاقت، دولت و ثروت اور سخاوت میں 
تیمور بیگ کے مرتبے کو پہنچ سکے گا



Comments

Turko mongol

فاتح عالم چنگیزخان

فاتح عالم چنگیز خاں چنگیزخان    خاندانی پس منظر شخصیت و کردار تاریخ کے آئینے میں   از قلم  ڈاکٹر عارف محمود چغتائی   نائب صدر بابری فورم پاکستان  03013353330   ہاوس آف بورجین کا ایک دمکتا ستارہ تموچن (چنگیز خان) کے خاندان (ہاوس آف بورجین) کا پس منظر  بورجین کون ہیں؟  بورجیگان کے لفظی معنی ہیں نیلگوں آنکھوں والے بھیڑیے کی اولاد یا نیلگوں  آنکھوں والے بھیڑیوں والے  بورجیگان     تومنہ خان اسے بورجین کا جدِاعلی کہا جاتا ہے اس کے دو جڑواں بیٹے قبل یا قابل خان دوسرا قجولی یا قاچولی بہادر تھا. قبل خان پہلے اس دنیا میں آیا اس لیے اسے بڑا کہا جاتا ہے اور اسی قبل خان سے اگئے تموچن یعنی چنگیز خان آتا ہے اور جبکہ قجولی بہادر سے اگئے تیموری آتے ہیں تومنہ خان نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دونوں بیٹوں "قبل خان" اور قجولی بہادر "کے درمیان ذمہ داریاں تقسیم کر دیں تھیں اس ذمہ داری کے مطابق قبل خان اور اس کی اولاد سرداری یا حکمرانی کرے گی جبکہ قجولی بہادر کی اولاد سپہ سالاری کرے گی اور اس معاہدے کو فولاد کی تختی پر کندہ کرا کے محفوظ کر دیا ...

مغل بحریہ

مرزا عرفان بیگ ایڈووکیٹ  میرزا عرفان بیگ ایڈووکیٹ کے قلم سے  🔻مغربی ساحل پر مغل بحریہ🔻  ❗️یہ افسانہ ہے کہ مغلوں کے پاس بحریہ نہیں تھی...درحقیقت مغلوں کے پاس بحریہ تھی....اورنگزیب کے دور میں یہ سب سے زیادہ مضبوط تھی......اورنگ زیب نے اپنی خدمت میں سدیوں کو بھرتی کر کے مغربی ساحل میں ایک طاقتور بحری قوت تیار کی جس نے   1686-1690 کی اینگلو-مغل جنگ میں انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کو شکست دی جسے بچوں کی جنگ بھی کہا جاتا ہے..... ‏ (A History of Mughal Navy and Naval Warfares ; Author, Atul Chandra Roy , page 142-143.) کتاب اے ہسٹری آف مغل نیوی اینڈ نیول وارفیئرز کا 7 واں باب؛  مصنف، اتل چندر رائے....مغربی ساحل پر مغل بحریہ کے بارے میں تفصیل سے بحث کرتے ہیں جو بنیادی طور پر سدیوں کے زیر انتظام تھا۔  پانیکر نے بجا طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ "پرتگالی اتھارٹی کے ٹوٹنے اور برطانوی بالادستی کے قیام کے درمیان کے وقفے میں، ہندوستانی بحری مفاد میں ایک قابل ذکر بحالی دیکھنے میں آئی۔ کیمبے اور جنجیرہ میں مغلوں کے ایڈمرلز نے تجارتی تحفظ کے لیے کافی مضبوط بحری طاقت تیار کی۔...

تقریب یوم بابری کے موقع بیگ راج صاحب کا خطاب

 تقریب یوم بابری در 14 فروری 2022 کے موقع پر بیگ راج کا خطاب